کتنا بدل گیا انسان !

تحریر ،عرفان خان سدوزئی
عدم برداشت کی لڑاٸی شاہراۓ جمہوریت سے ہوتی ہوٸی گلی محلوں تک پہنچ چکی ہے ۔ سیاسی رہنماٶں سے لیکر عام کارکنوں تک کوٸی ہار ماننے کو تیار نہیں ، چوک چوراہے حالات حاضرہ کے ٹی وی پروگراموں کا منظر پیش کررہے ہیں جہاں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے دلاٸل کے بجاۓ گرجدار لہجے ، غصے، بدزبانی اور گالم گلوچ کا استعمال معمول بن چکا ہے ، ایسے حالات میں سب پریشان ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟
متحدہ حزب اختلاف سیاسی جنگ جیت کہ اقتدار میں آچکی ہے جبکہ عمران خان خان اسلام آباد، پشاور اور کراچی کے جلسوں میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے یہ تاثر قاٸم کرنے میں کامیاب ہوۓ ہیں کہ مہنگاٸی، بےروزگاری اور حکومت میں رہتے ہوۓ ناقص کارکردگی کے باوجود عوام کا ایک طبقہ آج بھی ان کی حمایت میں کھڑا ہے ، تحریک انصاف کے بقول یہ وہ لوگ ہیں جو عمران خان کا ساتھ کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، توشہ خانے سے ہیروں کے ہار ، سونے کی گھڑی اور کلاشنکوف کی فروخت کے باوجود یہ طبقہ ان حقاٸق کو عمران خان کے خلاف سازش سمجھتا ہے اور اس مہم کا حصہ بنے ہوۓ ہیں کہ عمران خان کو اللہ نے سب کچھ دیا ہے اسے یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟۔
ایسے کارکنوں کے ذہنی ، جذباتی اور سیاسی رجحانات انتہاٸی دلچسپ ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے سیاسی، ثقافتی، اور معاشی اختیارات کے دریا پھوٹتے ہیں، وہ اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھنا بھی جانتا ہے اور ایسا کرنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ کہنے کو تو اس کے کارکن بہت روشن فکر، جمہوری اور ترقی پسند ہیں مگر یہ کارکن بنیاد پرست اور سماجی برتاؤ میں بہت ہی قدامت پسند ثابت ہوۓ ہیں ، غیرت کی دھن پر جان لیوا رقص کرتے ہیں اور وطن کے خطرے میں وجد میں آتے ہیں اور اگر امریکی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صدا دو تو یہ آپے سے باہر ہو کر مکمل مجنوں بن جاتی ہے۔
عمران خان نے ایک منظم مہم کے ذریعے اپنے چاہنے والوں کا ایک ایسا قبیلہ تشکیل دے دیا جس کے سردار عمران خان ہوں اور کارکن انکی رعایا جسے عمران خان میں کوٸی خامی نہ دکھاٸی دیتی ہو ۔ سابق صدر پاکستان ممنون حسین بیان کیا کرتے تھے۔ ’میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ جنرل عبدالقادر بلوچ اپنے تمام تر سیاسی و سماجی مقام و مرتبہ کے باجود اپنے قبائلی سردار نواب ثنا اللہ زہری کے سامنے ہمیشہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ایسا کیوں تھا؟ یہ راز ڈاکٹر مری کھولتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ اس بے حد احترام کا سبب سردار کا سیاسی و سماجی مرتبہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس پشت روحانی قوت بھی ہوتی ہے ، بلوچوں کے سارے پی ایچ ڈی، سارے یورپ پلٹ اور سارے علم و دانش کے مالک اشخاص بھی اپنے سردار کو ولی اللہ گردانتے ہیں۔ قبائل کے نزدیک سردار اللہ کا برگزیدہ اور پسندیدہ شخص ہے۔ تبھی تو اسے اتنی طاقت عطا کر دی گئی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ بلوچ اپنے سردار کو صاحب کرامت پیر اور بزرگ بھی سمجھتے ہیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ سرداروں کے صاحب کرامت ہونے کی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں؟ انھوں نے بلا تامل جواب دیا ایک نہیں، کئی بلکہ ہزاروں ۔ اتنا کہہ کر سانس لینے کے لیے تھوڑا خاموش ہوئے پھر کہا کہ پہلے ایک واقعہ شاہ ایران کا سن لیجیے، انھوں نے بتایا شہنشاہ ایران ایک بار کسی پہاڑ سے گر پڑے لیکن کسی گھاٹی میں گر کر موت کے منھ میں جانے کے بجائے کسی نرم جگہ یا پانی میں گرے یوں بچ گئے۔ اس واقعے کی کہانی انھوں نے یہ بیان کی کہ حضرت علی نے انھیں اپنی بانہوں میں لے کر مرنے سے بچا لیا تھا۔‘

بلوچ معاشرے میں اس قسم کی ہزاروں کہانیاں موجود ہیں جن پر یقین کیا جاتا ہے اور سرداروں کی براردی ان تصورات کے فروغ میں ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تو میں نے سوال کیا کہ مثلاً مثلاً ایوب خان کا زمانہ جب نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری تھی۔ اس زمانے میں اسی قسم کا ایک واقعہ معروف ہو گیا تھا۔ سیکیورٹی فورسز کے حکام ایک جگہ کھڑے تھے۔ مری قبیلے کے لوگ بھی تھے۔ سامنے سے گاڑی چلی آرہی تھی۔ گاڑی میں نواب صاحب موجود تھے جو گرفتاری دینے کے لیے خود آرہے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ سامنے سے گاڑی آتے آتے اچانک غائب ہو گئی اور سیکیورٹی فورسز کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کچھ دیر کے بعد گرفتاری کا مقام گزرنے کے بعد وہی گاڑی اسی راستے پر ایسے جاتی دکھائی دی جیسے گرفتار کرنے والوں کے بیچ سے گزری ہو مگر انھیں کچھ دکھائی نہ دیا ہو۔
لوگ اس واقعے پر ایسے یقین کرتے ہیں جیسے یہ ان کا آنکھوں دیکھا ہو۔
اللہ ہم سب کو بھی عقل سلیم عطا کرے تاکہ ہم سیاسی مخالفت میں اتنا آگے نہ چلے جاٸیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو ۔ ہمیں احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں ہم اندھی تقلید کرتے کرتے سیاسی رہنماٶں کو روحانی شخصیات کا درجہ تو نہیں دے رہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں