ٔجنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ

تحریر ، ڈاکٹر پیر علی رضا بخاری

آزاد کشمیر میں ہر سال جنگلات کو آگ لگنا معمول ہے ،امسال میرپور ڈویژن خاص طور کوٹلی و بھمبر ڈویژن میں خوفناک آتشزدگی سے کروڑوں روپے مالیت کے جنگلات جلنے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ،گرم موسم شروع ہونے سے قبل ہر سال کی طرف کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیے گئے،لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ،ایمرجنسی رابطہ نمبرز دیے گئے،جنگلات کے کمپاٹ کی سطح پر کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں مگر کارکردگی حوصلہ افزاء نہی ،کوٹلی ،سہنسہ، ،چڑہوئی کے مقامات پر محکمہ جنگلات اور انتظامیہ کے سامنے قیمتی جنگلات اور جنگلی حیات خاکستر ہو گئی،محکمہ جنگلات جس پر عوام کے ٹیکسوں سے سالانہ کئی کروڑ خرچ ہوتے ہیں اس نے مزید کروڑوں کا قیمتی اثاثہ محفوظ رکھنے میں نااہلی اور غفلت برتی جس کا احتساب ضروری ہے ۔
آگ کے لیے تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے، ایندھن، آکسیجن اور تپش۔فائر فائٹرز جب آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اکثر ’فائر ٹرائنگل‘ کا ذکر کرتے ہیں۔
جس کا مطلب ہے کہ اگر ہم آگ کے لیے ضروری تین چیزوں میں سے ایک کو ہٹا لیں تو آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔گرمیوں میں جب درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اور خشک سالی جیسے حالات ہوتے ہیں تو ایک چھوٹی سی چنگاری سے آگ لگ سکتی ہے۔کبھی کبھار آگ قدرتی طور پر سورج کی تپش یا پھر آسمانی بجلی کے گرنے سے لگ جاتی ہے۔تاہم جنگلات میں آگ لگنے کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کی جانب سے برتنے والی بے احتیاطی ہے۔ بعض اوقات دانستہ بھی آگ لگائی جاتی ہے۔
جب جنگل میں ایک بار آگ شروع ہو جائے تو وہ ہوا، اترائی، چڑھائی اور خشک درختوں کی شکل میں موجود ایندھن، آگ کے تیزی سے پھیلنے کا سببب بنتا ہے۔
لیکن جہاں یہ تینوں چیزیں ہوں تو آگ پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑے علاقے پر پھیل جاتی ہے۔
جنگلات کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے ’فارسٹری کمیشن‘ سے وابستہ راب گزارڈ کے بقول ’اترائی یا چڑھائی والی جگہ پر آگ کے پھیلنے کی رفتار تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔‘کیا موسم کا کوئی کردار ہوتا ہے؟جی ہاں موسم اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جب خشک سالی ہو اور موسم بھی بہت گرم ہو تو یہ حالات آگ لگنے کے لیے بہت ساز گار ہوتے ہیں۔آپ کو ’فائر ٹرآئنگل‘ والی بات یاد ہے نا؟ خشک درخت، گھاس اور دیگر پودے وغیرہ آگ کے لیے ایندھن بن جاتے ہیں۔ جب زیادہ گرمی پڑتی ہے تو آگ کے پھیلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ آگ کی شدت میں دوپہر کے وقت تیزی دیکھنے میں آتی ہے۔وہ ممالک جہاں گرمی زیادہ ہوتی ہے اور بارش بھی کم ہوتی ہے وہاں کے جنگلات میں آگ لگنے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے
راب گزارڈ کاکہنا ہے کہ ’آگ کے لیے ایندھن اور آکسیجن لازمی ہیں۔جب آگ پھیلتی ہے تو بعض اوقات وہ ایسی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے جو آگ کے پھیلنے کے لیے معاون ہوتی ہیں۔‘ان کے بقول ’آگ سے پیدا ہونے والے دھویں کے بادلوں کے باعث آپ آگ کو صیح طریقے سے دیکھ نہیں سکتے جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘
آگ سے کیسے جیتا جا سکتا ہے؟راب گزارڈ کہتے ہیں کہ ’آگ پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے اس کے راستے میں موجود ایندھن کو ہٹا دیا جائے۔آپ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آگ اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں کسی طرف کا رخ کرے گی اور پھر اس کے راستے میں موجود ایندھن کو وہاں سے ہٹا کر آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘
ہم جنگلات کے بارے میں سوچتے ہیں تو صرف یہی بات ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ یہ صرف کاربن اسٹور کرنے والے پاور ہاؤس ہیں۔ بلکہ یہ حیاتیاتی تنوع کا بھی متتعدد حوالوں سے تحفظ کرتے ہیں۔ کاربن گیسیں جذب کرنا، زیر زمین پانی کو تازہ بنانا، زمین کو کٹاؤ سے بچانا اور قدرتی ماحول اور تر و تازہ آب و ہوا کو برقرار رکھنا، یہ سبھی کام۔ یہ جنگلات مقامی ایکو سسٹم کا کلیدی حصہ ہیں، ہماری مارکیٹ یا ہمارا نظام اس امر کا مالیاتی حوالے سے تقابلی جائزہ نہیں لیتا۔ یہ مارکیٹ سسٹم کی ناکامی ہے۔ہمارے جنگلات کو آتشزدگی کے بعد سب بڑا خطرہ کرپٹ ملازمین اور ٹمبر مافیا سے ہے جنگلات ہمارا قومہ اثاثہ ہے لیکن خودغرض اور مفاد پرست اس کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس کا لوٹ مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔جنگلات کی حفاظت کیلئے باضابط طور محکمہ مقرر ہے اور محکمہ جنگلات کے کئی شعبے بھی بنائے گئے ہیں جس میں فارسٹ پروٹیکشن فورس ہونی چاہئے تاکہ وہ طاقت کے بل پر اسمگلروں کا قافیہ حیات تنگ کرسکیں ۔اس فورس کے وجود میں آنے کے بعدجنگل اسمگلر خوف محسوس کرنے لگیں گے۔نامساعد حالات میں جہاں معمولات زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے وہیں حالات کی خرابی جنگل اسمگلر وں کیلئے عید ہوتی ہے اور وہ اس دوران جنگلات کو سونے کی کان تصور کرتے ہیں ۔ ۔محکمہ جنگلات کے بہت سے افسران و ملازمین فرض شناسی اورایمانداری کا مظاہرہ کرکے جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے میں متحرک رہتے ہیں اور جنگلر اسمگلروں کا تعاقب کرکے ان کے عزائم کو خاک میں ملادیتے ہیں لیکن چند گرد نما افسران وملازمین ان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاکر ہھی سرگرم ہوکر جنگل اسمگلروں کی پشت پناہی کرکے جنگلات کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ہم وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان سے گذارش کریں گے کہ وہ اپنی حکومت کی ترجیحات میں آزاد کشمیر کے اندر جنگلات کے بچاو،تحفظ اور فروغ کو بھی شامل کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں