پاکستان میں خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے

اسلام آباد (شیراز علی راٹھور/اے ایف بی )ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔’سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جبکہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔ وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔‘ان بارانی علاقوں میں خشک سالی کے بعد ایک طرف تو مسلسل قحط سالی ہے اور دوسری طرف گذشتہ چند سالوں سے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ان علاقوں میں صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔عالمی تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ کی حالیہ دنوں میں ’کوسٹ آف کلائمٹ ان ایکشن: دسپلیسمنٹ اینڈ ڈسٹریس مائگریشن‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سطح سمندر میں اضافے، صاف پانی کی قلت، فصلوں کی پیداوار میں کمی، حیاتیاتی تنوع کے نظام میں بگاڑ اور قحط سالی کے باعث 2020 تک چھ لاکھ 82 ہزار لوگ موسمیاتی مہاجریں بن کر نقل مکانی کرگئے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 2050 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تقریباً دو لاکھ افراد موسمیاتی مہاجرین بن جائیں گے۔جنوبی پنجاب کے روہی اور چولستان صحرا، سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر یا وائٹ ڈیزرٹ، نارا صحرا، کاچھو، کوہستان اور لاڑ، بلوچستان کے مکران کوسٹ سمیت آواران، بلوچستان کے قلات، چاغی، نئوکنڈی اور ژوب میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے باعث مقامی لوگوں کی اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔سندھ کا صحرائے تھر قحط سالی سے متاثر خطوں میں سرفہرست ہے جہاں کئی سالوں سے بھوک کے باعث خواتین اور نومولود بچوں کی اموات کی خبریں مقامی میڈیا میں چھپتی رہتی ہیں۔