ٹیوب ویل کتنے ،زیرامین پانی کی سطح کیا ؟ دیٹا نا ہونے پر شیری رحمان حکام پر برہم

اسلام آباد( محمد حسیب ریاض) پاکستان میں ٹیوب ویل کتنے ہیں اور زیرامین پانی کی سطح کیا ؟ مکمل دیٹا نا ہونے پر چئیرپرسن قائمہ کمیٹی شیری رحمان وزارت آبی وسائل حکام پر برہم، مکمل تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کرلیں، جبکہ قائمہ کمیٹی نے اسلام آبادمیں سید پور ویلیج میں سیلابی صورتحال اور نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں ڈوبنے والے کار سوار باپ بیٹی کے واقعہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا،متعلقہ نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے نمائندگان کو طلب کرلیا تاکہ معاملے کی مکمل چھان بین کی جا سکے اور ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔کمیٹی نے ہاوسنگ ریگولیٹری اتھارٹیز سے بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کلاوڈ برست جیسے نام لے نااہلی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاہم کلاوڈ برسٹ کے ایونٹس بھی بڑھ رہے ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمان کی صدارت بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا جس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال، ملک میں شدید بارشوں سے ہونے والی تباہی، اور پانی کے بڑھتے ہوئے بحران پر تفصیلی غور کیا گیا۔اجلاس میں بارشوں اور سیلاب سے ہونی والی اموات پر دعائے مغفرت کرائی گئی۔ اجلاس کے دوران نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں پیش آئے حالیہ واقعہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر شیری رحمان نے سوال اٹھایا کہ “نجی ہاوسنگ سوسائٹی کا واقعہ کس کی ڈومین میں آتا ہے؟” انہوں نے مزید استفسار کیا کہ “نجی ہاوسنگ سوسائٹی نے کس طرح سے تعمیرات کیں کہ ایسا واقعہ پیش آیا؟”اس موقع پر چیئرپرسن کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں متعلقہ نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے نمائندگان کو طلب کرلیا تاکہ معاملے کی مکمل چھان بین کی جا سکے اور ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔کمیٹی نے ہاوسنگ ریگولیٹری اتھارٹیز سے بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔سینیٹر شیری رحمان نے بتایا کہ26 جون سے 22 جولائی کے درمیان ملک بھر میں شدید بارشوں کے باعث 242 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ 598 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 21 اموات اور 6 زخمی رپورٹ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ”یہ کوئی وقتی آفت نہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا مسلسل عمل ہے، اور پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی خطرے کا شکار ملک قرار دیا جا چکا ہے۔انہوں نے قدرتی آبی گزرگاہوں پر غیر منصوبہ بند تعمیرات کی شدید مذمت کی اور کہا کہ سید پور گاوں اور راولپنڈی میں قائم نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں پیش آنے والے واقعات میں انسانی غفلت کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ انہوں نے واضح کیا،”ہم ان واقعات کو قدرتی آفت نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس سے انسانی کوتاہی کی ذمہ داری سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔ یہ انسانوں کی پیدا کردہ آفات ہیں جو ناقص منصوبہ بندی اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف بے عملی کا نتیجہ ہیں۔انہوں نے راولپنڈی کی نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں باپ بیٹی کی گمشدگی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ریسکیو آپریشن تاحال جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں ایمرجنسی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے سیاحتی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی ہدایت کی۔شیری رحمان نے شدید تشویش ظاہر کی کہ کسی وزارت کے پاس پاکستان میں زیرِ زمین پانی کے استعمال کا نقشہ موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارتِ آبی وسائل نہ تو فی کس سطحی پانی کے استعمال کا ڈیٹا دے سکی، نہ ہی ملک میں زرعی مقاصد کے لیے چلنے والے ٹیوب ویلز کی تعداد یا ان کے ریچارج کا کوئی اندازہ پیش کر سکی۔انہوں نے کہا”ایک ایسا ملک جسے اقوامِ متحدہ نے رواں سال پانی کی قلت کا شکار قرار دیا، اس کے ترقیاتی منصوبوں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس جدید ابتدائی وارننگ سسٹم بھی موجود نہیں، اور آج بھی 1912 کے ماڈل پر مبنی پرانے سسٹم سے کام لیا جا رہا ہے، جب کہ دنیا میںاے آئی پر مبنی ریئل ٹائم وارننگ سسٹم رائج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ابتدائی وارننگ کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔انہوں نے ہدایت کی کہ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو فوری طور پر وارننگ سسٹم بہتر بنانے کی ہدایات جاری کی جائیں گی، اور کمیٹی اس میں مکمل تعاون فراہم کرے گی۔انہوں نے کہا کہ صوبوں کو ٹیوب ویلز کی تعداد پر واضح ہدایات دی جائیں۔ حکام نے بتایا کہ1975-76 میں پاکستان میں 0.16 ملین ٹیوب ویلز تھے جو 2017-18 تک بڑھ کر 1.39 ملین ہو چکے ہیں۔ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے برعکس پاکستان میں کسی شہر کی سطح پر بھی زیر زمین پانی کی نگرانی کا نظام موجود نہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2022 کے ڈیٹا پر انحصار قابلِ قبول نہیں، اور تمام صوبوں کو ہدایت کی گئی کہ2025 کی تازہ ترین رپورٹس آئندہ اجلاس میں پیش کریں۔چئیرپرسن کمیٹی سینیٹر شیری رحمان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بارش کے پانی کو محفوظ بنانے یا ریچارج ویلز پر کوئی کام نہیں کیا جا رہا، حالانکہ دنیا ان امور کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔”پاکستان میں صرف بات چیت ہو رہی ہے، جب کہ زمینی حقائق دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور چترال کی زمین بنجر ہو چکی ہے اور ہر مون سون کے بعد صوبوں کو شدید پانی کی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔آئندہ اجلاس میںزیر زمین پانی کی ریچارج، ٹیوب ویلز کی ریگولیشن، اور بارش کے پانی کے ذخیرے کے حواے سے تمام صوبوں سے تازہ ترین اعداد و شمار اور منصوبے طلب کیے گئے ہیں۔اجلاس میں وزارت آبی وسائل حکام نے زیر زمین پانی سے متعلق چیلنجز پر بریفنگ میں بتایاکہ اس وقت سب سے بڑا چیلنج ٹیوب ویل کی گروتھ کا ہے، بارش کے پانی کو ابھی تک صحیح سے استعمال نہیں کر پارہے ہیں، کلائمٹ سمارٹ ایگریکلچر پر کام کرنے کی ضرورت ہے،سی ڈی اے نے اسلام آباد میں 100 ریچارج قابل ٹیوب ویلز لگائے گئے ہیں، اس وقت مسئلہ پانی کے آپریشنز کا ہے۔اجلاس میںسینیٹر بشری انجم بٹ، سینیٹر فلک ناز، سینیٹر سید وقار مہدی، اور سینیٹر ٹشہادت اعوان نے شرکت کی۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی، وزارتِ آبی وسائل، اور فیڈرل فلڈ کمیشن کے سینئر افسران بھی اجلاس میں موجود تھے۔اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرپرسن اسٹینڈنگ کمیٹی سینیٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا