وزیراعلی پنجاب انتخاب کے خلاف درخواستیں، 25 ووٹ نکال کرآج دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم

لاہور(اے ایف بی) لاہور لائیکورٹ نے16 اپریل کو پنجاب کے وزیراعلی کے انتخاب کے خلاف پی ٹی آئی،ق لیگ اور سپیکر چودھری پرویز الہیٰ کی درخواستیں منظور کرکے 25 منحرف اراکین کے ووٹ نکال کرآج (جمعہ کو) وزیراعلی پنجاب کاانتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دے دیا ہے،عدالت نے وضاحت کی ہے کہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ برقرار رہیں گے اور اگر دوبارہ انتخاب کے بعد وہ اکثریت کھو دیتے ہیں تو 30اپریل کوان کی کامیابی کے لئے جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن ختم تصور کیا جائے گا، عدلت نے کہا کہ حمزہ شہباز حکومت اب تک کئے گئے فیصلوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا ۔جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس ساجد محمود سیٹھی، جسٹس طارق سلیم شیخ اورجسٹس شاہد جمیل خان پر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے5رکنی لارجربینچ نے 16 اپریل کو ہونے والے وزیراعلی پنجاب کے الیکشن کے خلاف پی ٹی آئی،مسلم لیگ ق اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کی درخواستیں منظور کر لیں، لارجر بنچ نے گذشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے فیصلے سے مشروط اختلاف کیاجبکہ جسٹس شاہد جمیل نے فیصلے سے جزوی اختلاف کیا ۔ عدالت کے اکثریتی فیصلے میں میڈیا کی رپورٹنگ کی تعریف کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے پروفیشنل رپورٹنگ کی،کچھ وی لاگرز نے کیس کو اسکینڈ لائز کیا، پیمرا اور ایف آئی اے اسکینڈلائز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ تحریک انصاف کی جانب سے 5 اپیلیں دائر کی گئیں تھیں، جس میں حمزہ شہباز کے الیکشن کو چیلنج کیا گیا تھا، پنجاب اسمبلی میں جوکچھ ہوا اس کے کنڈکٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا،پی ٹی آئی اور چوہدری پرویز الہیٰ کی جانب سے دائر درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلیٰ پنجاب قانونی نہیں اور اوراس میں غیر قانونی اقدامات بھی شامل کئے گئے ہیں لہذا حمزہ شہباز کے الیکشن کو کالعدم قراردیا جائے ۔پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد اگر25ووٹ نکال دیئے جائیں تو حمزہ شہباز کے پاس 172ووٹ بچتے ہیں اور وہ 172ووٹ کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں رہ سکتے۔عدالت نے ان درخواستوں کو منظور کرلیا گیا ہے۔ سماعت کے بعد جاری کردہ مختصر حکم نامے میں لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ 16 اپریل کو ہونے والے الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی منحرف قانون سازوں کے 25 ووٹوں کو شمار کیے بغیر کی جائے۔ فیصلے میں کہا گیاہے کہ اگر حمزہ شہباز وزیر اعلی بننے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے تو آرٹیکل 130(4) کے تحت الیکشن دوبارہ کرایا جائے گا جب تک کہ عہدے کے لیے موجود کسی امیدوار کو اکثریت حاصل نہ ہو۔ فیصلے میں مزید کہا گیاہے کہ آرٹیکل 130(4)کے مطابق ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کسی رکن کو 186ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وزیر اعلی منتخب ہونے کے لیے صرف موجودہ اراکین اور ان کے ووٹوں میں سے اکثریت کی ضرورت ہوگی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پریذائیڈنگ افسر کی جانب سے 25ووٹوں کو نکالنے کے بعد حمزہ شہباز مطلوبہ اکثریت سے محروم ہو گئے تو وہ وزیر اعلی نہیں رہیں گے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دوبارہ انتخابات کے لیے اگر ضرورت پڑی تو، پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج یکم جولائی 2022 شام 4 بجے ہوگا۔لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں زور دے کرکہا ہے کہ جب تک انتخابی عمل مکمل نہیں ہو جاتا اور پریزائیڈنگ افسر منتخب وزیر اعلی کے نتیجے سے گورنر کو آگاہ نہیں کرتا اس وقت تک پنجاب کے اجلاس کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ گورنر آرٹیکل 130(5) کے تحت بغیر کسی پس وپیش اور ہچکچاہٹ کے بغیر حلف لینے کا اپنا فرض اگلے روز 2جولائی کوصبح 11 بجے سے پہلے کسی بھی وقت ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سماعتوں کے دوران عدالت نے 16 اپریل کے حالات تناظر میں پنجاب کے وزیراعلی کے عہدے کے لیے نئے انتخابات کرانے کا عندیہ دیا تھا۔