جہانگیر ترین اور علیم خان کا مقصد اقتدار میں آکر فائدہ اٹھانا تھا، عمران خان

اسلام آباد(اے ایف بی) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے منحرف ہونے والے اپنے پرانے ساتھیوں جہانگیر ترین اور علیم خان سے اختلافات کی وجوہات سے پردہ اٹھادیا۔عمران خان نے سوشل میڈیا پر پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر امریکا سے دوستی چاہتا ہوں، میرا جرم آزاد خارجہ پالیسی تھی۔عمران خان نے کہا کہ میرے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی کہ پاکستان میں موجود میرجعفر و میرصادق نے انکا ساتھ دیا، ہمیشہ یقین رکھتا ہوں کہ میرا ملک مضبوط، آزاد ہے اور وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے از خود نوٹس بھی لے لیا اور رات 12 بجے عدالتیں کھل گئیں لیکن منحرف ارکان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے پارٹی کی کامیابی کے لیے بہت محنت کی لیکن ان کے آئیڈیلز وہ نہیں تھے جو میرے تھے، ان کا اقتدار میں آنے کا کچھ اور مقصد تھا، اسی لیے آج وہ چوروں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا مقصد اقتدار میں آکر فائدہ اٹھانا تھا۔عمران خان نے زور دیا کہ اب جس کو ٹکٹ دوں گا اس سے حلف لوں گا کہ اگر کاروبار کرنا ہے تو اقتدار میں نہ آئیں، یہ نہ سمجھنا میں آپ کے کاروبار کو غیرقانونی فائدہ پہنچاؤں گا۔انہوں نے بتایا کہ چینی مہنگی ہوئی تو شوگر مافیا کیخلاف کارروائی پر جہانگیر ترین سے اختلافات ہوئے، علیم خان نے راوی میں 300 ایکڑ زمین لے لی جسے وہ قانونی کروانا چاہتے تھے ، ان کے خلاف نیب میں بھی کیسز تھے، وہ مجھ سے چاہتے تھے جو کام نواز شریف اور زرداری کرتے تھے میں بھی وہی کروں یعنی غلط کام کو جائز کرنا، اس پر مجھ سے ان کے اختلافات ہوئے۔عمران خان نے کہا کہ ایف آئی اے نے شہباز شریف کے نوکروں کے نام پر 16 ارب روپے پکڑا لیکن ہم اپنے ساڑھے تین سال کی حکومت میں اسے سزا نہ دلواسکے، کبھی اس کی کمر میں درد ہوتا تو کبھی بنچ ٹوٹ جاتا، ہمارا نظام انصاف اسے پکڑتا ہی نہ تھا، اداروں میں مجرم کو پکڑنے کی صلاحیت اور خواہش ہی نہیں ہے، اداروں میں کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے لوگ بیٹھے ہیں، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اداروں پر عوام کا دباؤ آئے کہ ان مجرموں کو پکڑیں، اب انہیں این آر او ٹو مل گیا۔عمران خان نے بتایا کہ جب تک مجھے صحیح معنوں میں بھاری اکثریت نہیں ملے گی میں اقتدار میں آنا ہی نہیں چاہتا، ہمارے حکومت میں ہاتھ بندھے تھے، ہم سینیٹ میں قانون سازی ہی نہیں کرپاتے تھے، سیمنٹ، شوگر، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کارٹلز بنے تھے، 8 مسابقتی اداروں پر 11 سال سے 800 اسٹے آرڈرز تھے، 250 ارب روپے پھنسے تھے، اب باری ملے تو اکثریت سے ملے تاکہ مافیا کے خلاف کارروائی کرسکوں۔جنرل فیض حمید سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میری فوج سے کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا، کیونکہ میں نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی، نہ میں نے سوچا اپنا آرمی چیف لاؤں۔انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے تناظر میں، میں چاہتا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید اس عہدے کو جاری رکھیں، کیونکہ موسم سرما سب سے مشکل وقت ہوتا ہے، مجھے یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ ن لیگ والے انٹری کر رہے ہیں، مجھے جولائی میں ہی پتہ چل گیا تھا کہ ن لیگ نے حکومت گرانے کا پلان بنایا ہوا ہے، اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارا ڈی جی آئی ایس آئی تبدیل ہو، مشکل وقت میں اپنے انٹیلی جنس چیف کو نہیں بدلتے، کیونکہ وہ حکومت کی آنکھ اور کان ہوتا ہے، لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ میں جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتا تھا، میرے ذہن میں کبھی نہیں تھا کہ اپنا آرمی چیف لانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں